دو ہزار سال تک یہودی دنیا بھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ جن جن ملکوں میں رہے وہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد محض 30 کے سال اندر اندر یہودیوں نے امریکہ کی حکومت پرکس طرح اپنی فیصلہ کن حیثیت حاصل کی؟ اُنکا طریقہ کار کیا تھا؟ اِسکا پتہ بس حالیہ تاریخ پر ایک سرسری نطر ڈالنے سے مل جاتا ہے ۔
دو ہزار سال تک یہودی دنیا بھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ جن جن ملکوں میں رہے وہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن آخر کار انھوں نے نفرت پر قابو پایا اور اس پر فتح حاصل کی ۔۔ کیسے اور کیوںکر یہ ممکن ہوا؟َ اس کا فوری جواب جو ذہن میں آتا ہے وہ غالباً دولت ہے۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ یہودی مغرب کے سارے بینکوں پر قابض ہیں، اور یہ کہ وہ وال سٹریٹ کے علاوہ یورپ میں طاقت کے تمام مراکز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تاہم میرا سوال یہ ہے کہ ان کی قسمت میں یہ زبردست ہیر پھیر کیسے ممکن ہو پایا؟ یہ تبدیلی کیونکر واقع ہوئی؟ بظاہر 30 سالوں کے اندر اسرائیل بھی معرض وجود میں آگیا۔
ایک اور جواب ذہن میں آ سکتا ہے: مغربی یورپ کے اقوام کے اعلی طبقہ میں ایک احساس جرم تھا جس کے تحت انہوں نے یہودیوں کی حمایت کی اور اسرائیل کو اس عظیم ترین انسانی المیہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیئے قائم کیا جو دنیا نے ہولوکاسٹ کی شکل میں دیکھا تھا، جس میں لاکھوں انسانوں کو زہریلی گیسوں کے ذریعہ موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ تاریخ میں اس بڑے پیمانے پر نسل کشی کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ۔تاہم صرف احساس جرم ہی اس سوال کا جواب نہیں ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ
انّیسویں صدی میں بنجامن ڈزرائیلی جو ایک یہودی تھے برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہوے ۔ باوجود شدید خلاف یہودی تعصّب کے ۔ اسی طرح آج یوکرائین کے صدر ولوڈمیر زیلنسکی بھی یہودی ہیں اگرچہ ویاں کی اکثریت کرسچین ہے ۔
ایک اور جواب ہو سکتا ہے، اور یہ حقیقت کے قریب تر ہو سکتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کی تہذیب و ثقافت میں ضم ہوجانے کے نتیجہ میں اصحابِ کمال، جمال و ہمّت، مالکانِ ذورِ بازو، زن ہو کہ مرد، اعلی ترین مناصب تک پہونچتے ہیں ۔۔ ایسے لوگ ذات، پات مذب و ملّت سے بالا تر ہوتے ہیں ۔ لکن یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ قومی اقدار کی عکّاسی کرتے ہوے سیاسی اقتدار کے حصول کے جنونی ہوں یا بس خواہشمند ہوں ۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں صرف زر و زمین ہی فیصلہ کن نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات خداداد صلاحیت بھی کارفرما ہوتی ہے اقتدار حاصل کرنے میں ۔۔ مثلا” نہ صرف یوکرین کے زیلنسکی ، بلکہ رونالڈ ریگن، ایم جی آر، شیواجی گنیشن اور این ٹی راما راؤ بھی ذہن میں آتے ہیں جو جنوبی ہندکی ریاستوں کے ماضی قریب کے فلمی ہیرو رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے عمران خان کو کیوں نظر انداز کیا جائے؟
. بیشک صلاحیت کی اہمیت غیر معمولی ہے لیکن ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا امریکی یہودی صرف زر کی بنیاد پراپنے زبردست اثرو رسوق کا استعمال کرتے ہیں؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چینی اور روسی دولت مند حضرات کے پاس بھی بہت مال و دولت ہے لیکن وہ اپنی مالی طاقت کا و یسا استعمال نہیں کر سکتے جیسا کہ یہودی کمیونٹی واشنگٹن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ معاشی قوت سے بہت زیادہ آگے کا معاملہ ہے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ تمام مشکلات پر قابو پاکر اعلی ترین مناصب پر پہنچنے پر بھی انھیں ان کی نسلی یا اقلیتی جڑوں سے جانا جاتا ہے ۔ اقتدار اور اجتماعی اقتدار کے حصول میں دولت کے علاوہ دیگراوصاف اور صلاحیتوں کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔
امریکہ میں یہودیوں کی کہانی 18ویں صدی میں شروع ہوتی ہے جب یہاں محض 24 ہسپانوی نژاد یہودی اسپین اور برازیل سے نقل مکانی کرکے نیویارک شہر کے ساحلوں پر پہنچے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک جماعت قائم کی اور وہ اپنے عقائد وروایات پر عمل پیرا رہے۔ مصنف اسٹیون وایزمین کے مطابق ان یہودیوں نے جوسنی گاگ (عبادت گاہ) تعمیر کیا تھا وہ اب بھی نیویارک میں کھڑا ہے اور کھلا ہے۔
اسکا قصہ سٹیوَن وایزمن اپنی اس کتاب میں ذکر کیا ہے: “The Chosen War Wars: How Judaism Became an American Religion”, 2018. کے
اس طرح لاکھوں جرمن اور ہسپانوی نژاد یہودی نئی دنیا کی طرف ہجرت کر گئے اور وہ ایمسٹرڈیم اور لندن ان دونوں عظیم بندرگاہوں اور تجارتی مراکز سے آکر آباد ہوئے، امریکہ کی نیٗی یہودی آبادیوں میں گھل مل گئے۔ شامی اور لبنانی یہودی بھی بڑی تعداد میں نئی امریکی کالونیوں خصوصاً برزیل کی طرف نقل مکانی کر گئے۔
مغرب میں جو روشن خیالی یا عقلیت پسندی کا دور تصور کیا جاتا ہے تقریباً 1750 کے آس پاس شروع ہوا تھا۔ اس دور میں یہودی دانشوران بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے ۔ ۔ اس عرصے کے عظیم دانشوروں کا مغربی دنیا کی تشکیل میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ ان کا سلسلہ والٹیئر اور روسو، تھامس جیفرسن، چارلس ڈارون، کارل مارکس، اور سگمنڈ فرائڈ سے لے کر آئن سٹائن اور فرینک کافکا تک جاتا ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ زمانے قدیم سے یہودی مذہب نے اپنے پیروں کی رہنمای کے لیٗے انھیں میں سے نچلی سطح کے کمیونٹی لیڈروں کو ایک بہت بڑی زمّہ داری تفویض کی تھی وہ یہ کہ ہر رہنما (جسے ریبای کہا جانے لگا) یہودیوں کے ساتھ رہیں اور انہیں ہر موڑ پر رہنمائی کریں تاکہ وہ اپنی مذہبی شناخت برقرار رکھ سکیں۔
ان ریبایوں کا کام تھا کہ ممبران کو بتایٗں کس طرح کوشر یعنی حلال پکوان کریں، سنیچر کو سباط کا دن منایں، اور دوسرے خاندانی رسوموں میں صدارت کریں ۔۔ سب سے بڑا ذمّہ انکا تورات کے 600 یا اس سے زیادہ تحریری قوانین کی تفسیر کرنا رہاہے۔ ان قوانین کو مجموعی طور پر تلمود کہا جاتا ہے ۔
تلمود کی بہت سی جلدیں انفرادی زندگی کے تمام ممکنہ اعمال کا احاطہ کرتی ہیں۔ ختنہ اور سن بلوغت عمر کی تقریب، لڑکوں کے لیے بار میتزفہ (13 سال کی عمر ہونے پر) ، اور سیڈر کی پابندی وغیرہ ہر جگہ یہودیوں کی زندگی کا حصہ تھے۔
یہودی مذہبی رہنما ربیوں نے ہمشیہ سے جو فرائض انجام دیئے ہیں، مسلمان علما اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ کسی بھی یہودی سے نئے مقام پر منتقل ہونے پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ جماعت کے اندر کوئی ایسا ساتھی تلاش کرے جس سے وہ یہودی تاریخ اور فلسفہ کی معلومات اور تورات کے معانی معلوم کرسکے۔ ربی ہزاروں سالوں سے یہودی عہد نامہ قدیم کے نسخوں سے معنی تلاش کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
ھوٹے اور بڑے امور کے لیئے تلمود کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ چنانچہ جویہودی تلمود کی تعلیمات کے مطابق اخلاقی زندگی گزارنا چاہتے تھے وہ اپنے ریبای سے رجوع ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ کسی خاص خاندانی مسلہ یا جھگڑے پر تلمود سے کیا رہنمائی ملے گی۔
ریبای، اس نئے دور کی نیی دریافتوں کی روشنی میں تلمود اب کیا کہتی ہے؟” یہ فرض کیا جاتا ہے کہ معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔ چنانچہ
‘ بالکل نئے حالات کی روشنی میں تلمود میں رہنمائی تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کون سا قانون نا قابل عمل ہوگا اور کونسا دوسرا قانون قابل عمل ۔
یہ سوال ریبای کے لیے ہوتا ہے۔ اسے حذف و اضافہ اور استدلال کے ذریعہ اس کو
جواب دینا ہوتا ہے۔ربی ۔۔ رسم و رواج، الہیات اور سماجیات میں کیا تبدیلیاں کرنی ہیں اس کا اجتماعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ اجتہاد کے بابوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
ٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگلی قسط میں یہودی مذہب کی ابتدہ پرکفتگو ہوگی)
از اُسامہ خالدی، ترجمہ قمر فاروقی