یہودی  ابتداء  ہی سے امریکی یا یورپی نوآبادیاتی تاریخ کا  جز لاینفک رہے ہیں۔ وہ امریکہ کی خونی خانہ جنگی میں دونوں جانبین کا ساتھ دیتے رہے۔ باغی جنوبی وفاق یا  Southern Federation نے تو ایک یہودی تاجر یہودا بنجامن کو ٹریژری سکریٹری یا وزیر خزانہ مقرر کیا تھا۔  اگرچہ شکست کے بعد اسے جنوبی وفاق کا جزوی طور پر ذمہ دار گردانا گیا تھا۔ کیرولینا کے شہر چارلسٹن میں یہودیوں کی ایک بڑی ا ٓبادی رہتی تھی جہاں وہ اس بندرگاہ کو اپنی بین الاقوامی تجارت بالخصوص کپاس کی برآمد کرنے  کے لیے استعمال کرتی تھی۔  خیال یہ ہے کہ ان میں سے بعض یہودی  تاجر وں کے غلام رہے ہوں گے لیکن وہ باغات کے مالک نہیں تھے جہاں  ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں غلاموں سے مزدوری لی جاتی تھئ ۔ ان وسیع عریض مز رعات کے مالکان کی سفّکی اور ظلم و ستم کے داغ اب بھی امریک سماج میں نظر آتی ہیں ۔۔  یہ نکتہ ذہن  نشین  رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے 1807 میں غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی اور ممنوع قرار دے چکی تھی ۔

یورپ اور امریکہ دونوں خطوں کے معاشرے میں سامی مذہب  مخالف جذبات  یعنی یہودیوں سے نفرت کرنا  زندگی کی ایک  بدیہی حقیقت تھی۔ اس نفرت کی بنیاد  عیسائیوں کا یہودیوں کے بارے میں یہ خیال  راسخ کرنا تھا کہ ان کے مذہبی رہنماؤں نے یسوع مسیح  کے ساتھ فریب کیا۔ چنانچہ عیسائیوں بالخصوص  پروٹسٹنٹ عیسائیوں  کے نزدیک یہودی  ایک  لعنت زدہ  اور گنہگار قوم تصور کئے جاتے تھے۔ (معاشرتی اصطلاح میں یہودیوں کے ساتھ  غیر والا  سلوک روا رکھا گیا،  معاشرہ میں انہیں ” غیر ” یا ”ہم میں سے نہیں ” کے طور پر دیکھا جاتا۔

 19ویں صدی کے وسط تک  امریکی یہودی سبت کے دن، کوشر  (حلال)  اور یہودیت کی تعلیمات وغیرہ سے اتنے  بے بہرہ ہوگئے تھے جیسے  ان کے ہم وطن عیسائی شہری  اپنے  کلیساؤں سے دور ہوگئے تھے۔  یہودیوں میں یہودیت کی اصلاح کے لیے ایک زبردست تحریک اٹھی  اس نے زور پکڑا۔ یہ لوگ اصلاح پسند  یہودیوں کے نام سے ایک الگ فرقہ  کے طورپر مشہور ہوءے۔ اس فرقہ نے نئی چیزوں کو اختیار کرنے کی حمایت کی یا  یہودی روایات کو نظر انداز کرنا شروع کیا۔ تاہم جنہوں نے جدیدیت کو رد کیا اور  مقدس صحیفوں کی پرانی  تشریحات سے چپکے رہے  انہیں آرتھوڈوکس یا راسخ العقیدہ  یہودی کہا گیا۔ تیسرا فرقہ قدامت پسندوں کا تھا۔ وہ یہودی روایات اور عقائد کو ترک کرنے  کے معاملے میں اتنے آزاد خیال نہیں تھے جتنے کہ اصلاحِ  پسند یہودی۔ 

پس  امریکی یہودی تین فرقوں میں منقسم  ہوئے: اصلاح پسند، قدامت پسند اور آرتھوڈوکس۔

آرتھوڈوکس یہودی دنیا کے طالبان ہیں۔ یعنی  وہ مقدس کتابوں کی اصل و پرانی تشریحات  و معانی پر سختی سے قائم ہیں۔ان کے نزدیک   یہ چیز  اپنے  فرقہ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مالکان ایڈولف سائمن اوکز، اور آرتھر اوکس سلزبرگر  وغیرہ سبھی اصلاحی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس کلچر میں ضم ہو گئے۔ اس طرح  انہیں گوئم یعنی  غیر یہودیوں سے ممتاز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

19ویں صدی کے بیشترعرصہ میں امریکی یہودیوں اور ان کے رہنماؤں نے اپنے مذہبی طریقوں اور روایات کو امریکی روایات سے ہم آہنگ کرنے کی  جدوجہد کی۔ ان کے ربی یا مذہبی رہنماؤں نے  اپنی عبادت گاہوں کو سین گاگ قرار دیا  جہاں پروٹسٹنٹ  کلیساؤں  کی طرح مرد اور عورتیں شانہ بشانہ بیٹھتی تھیں۔ یہ یہودی روایت سے ایک بڑا  انحراف تھا۔19ویں صدی کے امریکی یہودیوں نے بھی اپنے  خاندان کے اندر جمہوریت کے تصور کو کم و بیش نظریاتی طور پر رائج کیا۔ یہ بھی روایت شکنی کی ایک اور مثال تھی۔

 یہودی ربیوں نے تورات اور اس سے منسلک تلمودی رہنمائی (جسے مسلمانوں میں تفاسیر کہا جاتا ہے) کی دوبارہ تعبیر و تشریح کی جس کے نتیجہ میں  یہودیوں میں سائنس سے وابستگی  میں اضافہ ہوا  اور انہوں نے سائنس  کے میدان  میں شاندار کارنامے انجام دیئے۔  ”موجودہ حالات میں تورات کیا رہنمائی کرتی  ہے؟“  عام آدمی کے اس سوال کا جواب دینے کے لیئے ربیوں کو ہمیشہ سے خاصی محنت کرنی پڑی۔  شارحین یا  مسلمانوں میں مفسرین ”موجودہ حالات“   کے بارے میں مقدس کتاب تورات کیا کہتی ہے اس کی تشریح کرتے۔ یہ  غور و تدبر کا ایک متحرک عمل تھا جس کے نتیجے میں نئے تصورات  پرانے خیالات کی جگہ لے رہے تھے۔ 

 با الفاظ دیگر مختصر  یہ کہ  امریکی اصلاح پسند ربیوں نے اپنے اجتماعات میں اور  پیروکاروں کو یہ  تلقین کرتے کہ: امریکہ کا حصہ بنو، مگر  امریکہ میں  دوسروں سے ممتاز رہو ۔  اپنے عقائد یا  بغیر عقائد کے حوالے سے اپنی  یہودیت کی شناخت کے اظہار کا معاملہ  افراد اور خاندانوں کی صوابدید پر منحصر تھا۔  یہودی بتدریج  اس بات  پر عمل کرنے لگے کہ یہودیت کے اظہار کے متعدد طریقے ہیں اور کوئی بھی انہیں ترک نہیں کرسکتا چاہے وہ ملحد ہی کیوں نہ ہوں۔ اس طرح  بین المذاہب شادیاں عام ہوگئیں۔

  یہودی دانشوروں نے امریکی جمہوریت کے لیئے جو عظیم خدمات  انجام دی  وہ یہ تھی کہ امریکی آئین  نے عوامی زندگی کا ایک مقصد اور نظام متعین کیا۔ انہوں نے امریکیوں پر یہ واضح کیا کہ آئین میں درج آزادیوں کا  مقصد کیا ہے  اور اسےملک بھر میں نچلی سطح پر کیسے  عمل  میں لایا جاسکتا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے جج صاحبان  جیسے فیلکس فرینکفرٹر، لوئس برینڈیس، اور ملٹن فریڈمین جیسے ماہرین اقتصادیات نے امریکی انقلابی اقدار جیسے انفرادی آزادیوں اور حقوق  انسانی  اور خاص طور سے سب سے اہم یہ ہے کہ  انتخابات کے دوران  انجمنیں اور جماعتیں تشکیل دے کر ان مقاصد کو فروغ دینے کا حق  وغیرہ کی تعریف کے دائرہ کو وسیع کیا۔  

یہودی پروفیسروں نے جو تشریحات پیش کیں  وہ گروہی مفاد کی سیاست کے نظریہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت  رائے دہند گان کو  اہرام کی شکل میں چھوٹے  چھوٹے مفا داتی گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اور ان کے قائدین  دوسرے گروہوں کے قائدین سے  اشتراک یا مفاہمت کرکے  اپنے  مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اتحاد جتنے  زیادہ  وسیع البنیاد ہوں گے وہ اتنے ہی زیادہ منظم  ہوں گے اس طرح  وہ کسی بھی سیاسی نظام میں  بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔  انہیں افقی پرتوں والے اہرام  کی شکل میں دیکھنا چاہیے۔ اس کی بنیاد سب سے زیادہ  اہمیت رکھتی ہے۔ اکثریت ہمیشہ40  تا 60  کے درمیان ہوتی ہے، یا  60 فیصد وسط میں ہوتے ہیں  اور 20 فی صد  بائیں یا دائیں  بازو کی طرف ہوتے ہیں۔ عموماً  جو آج بنیاد پرست ہیں  وہ کل اعتدال پسند  دھارے میں  جاسکتا ہے۔ اس معاملہ میں کوئی جمود نہیں ہے۔ ہر متحرک اور زندہ سیاست ارتقا پذیر ہوتی ہے۔  پس تاریخ  ارتقائی عمل سے گزرتی ہے۔

بیسویں صدی کے شروع ہی سے امریکی یہودیوں کا  بول بالا اخباری صحافت، جامعات, بزنس اور عدلیہ میں تو تھا ہی موجود، اسکے ساتھ ساتھ ان میں بعض سرمایہ کاروں نے ہالی وڈ کی بنیاد ڈالی، اور پھر صاحب، ۱۹۳۰ کے دہے سے ۱۹۷۰ کے درمیان ہالی وّڈ کے یہودی فلم کار سب سے زیادہ کامیاب رہے ۔۔ مثلاً ایم جی ایم، وارنر برادرز ، کولمبیا پکچرز ۔انھں نے ایسے مقبولِ عام فلمیں بنای جس میں مسخرے اور ہیرو کرداروں کو انصاف کے لٗیے لڑتے ہوے بتا یا گیا، نسلی نفرتوں کا مذاق اڑایا گیا، اور کمزور لیکن بااخلاق، با کردارمقابلے کے جیتنے والوں کو قانون کی عزّت اور احترام کرتا بتایا گیا ۔۔ انھی لوگوں نے امریکن کاوبواٗے کی داستانوں اور قصّوں کو امریکن روح، امریکن مساوات اور ظلم کے خلاف جہد کرتے ہوے دیکھا کربولا گیا کہ اصل امریکی سپی رِٹتو تو یہ ہے ۔ یاد میں لاٗیے بڑے مذہبی انجیل اور باٰٗیبل  سے متعلق فلمیں، جیسے اکسوڈَس، ٹن کمانڈمنٹس، بِن حرّ وغیرہ ۔ 

جون 1967 عرب اسرایٗل جنگ کے زمانے میں یہودی امریکنوں کا واشنگٹن پر اثر و رسوق اتنا زیادہ نہیں تھا ۔ لیکن اسکے بعد جو یہودی امریکن لابی اتنی طاقتور بن گیٗی کہ اسرایٗل کے لٗیے ہر سال بلینوں ڈالر کی امداد جانے لگی ۔ اسرایٗل کو ایک نہایت ہی چھوٹا مظلوم، محنتی ملک بتایا گیا ۔ اور پھر 1973 کی عرب اسرایٗلی جنگ کے بعد تو ٹی وی پر بہت سے فلمیں دیکھای گٗیں جس کے باعث  یہودیوں سے ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوگٗی ۔ دوسری جنگِ عظیم کے یہودی نسل کشی کے دوران کی کہانیاں امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں بہت مقبول ہویں ۔ 1972 اولمپکس کے دوران فلسطینیوں کے اسرایٗلی شہریوں کو اغوا اور قتل کرنے سے وہ کوی مقبولیت حاصل نہیں کٗیے ۔  بلکہ اسرایٗلی جارحیت کو زبردست امریکی مدد ملی ۔ 

از اُسامہ خالدی، ترجمہ قمر فاروقی

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights