آیزک بشیوِش سِنگر جو متعدد ناولوں، افسانوی مجموعوں اور بچّوں کی کتابوں کے مصنف تھے (A Holocaust survivor’s story)
ترجمہ: اسامہ خالدی
باہر ایک ٹرک تھا، جو چل پڑنے کا نام نہیں لے رہا تھا، ٹررر ٹرررر کیے جا رہا تھا۔ ہاں ہاں، دھیان سے! اور پھر ایک ایسی گہری سانس جیسے اس کی دھاتی روح ابھی پرواز کر جائے گی۔ بیسبال کھیلتے ہوئے لڑکے دیوانہ وار شور کر رہے تھے۔ کھلی کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا پٹرول کے ساتھ ساتھ پیاز کے تلے جانے، اور اوائل گرما کی مہک سے معمور تھی۔ چھت کی بتی کے دونوں طرف مکھیوں کا ایک جمگھٹا جو پوری یکسوئی سے بھنبھنائے جا رہا تھا۔ کھڑکی کے ولندیزی طرز کے پردوں سے ایک تتلی اڑتی ہوئی اندر میز پر آ کر بیٹھ گئی۔ وہ ایک لمحہ ساکت رہی۔ اس کے پر رک گئے جیسے وہ اپنی ناگزیر موت کی منتظر ہو جو ایسی فانی مخلوقات کا شیوہ ہے۔ ربی بیرشژچ لائینر اپنی تعویذات سے منقش شال اوڑھے ہوئے اپنی فرض نمازیں پوری کر چکے تھے۔ لیکن وہ اب نماز کے بعد کی تعقیبات میں مشغول تھے جو کہ یا تو بہت راسخ العقیدہ لوگ پڑھا کرتے ہیں یا پھر ایسے لوگ جن کے پاس فارغ وقت بہت ہوتا ہو۔
ربی بیرش کی داڑھی سفید اور چہرہ سرخ، گھنی بھنویں اور آنکھوں کے نیچے چربی کی دوہری تہیں لٹکتی تھیں۔ ابھی انہیں پارچہ فروشی کے بیوپار سے سبکدوش ہوئے دو ہی سال ہوئے تھے۔ ان کا مال بنڈی کا دھندا چالیس سال سے زیریں مشرقی حصے میں چلتا رہا تھا، یہیں ولیمز برگ محلہ میں ان کی بیوی، ایک لڑکا اور ایک لڑکی انہی وقتوں میں چل بسے تھے – ایک اور بیٹی تھی جو اپنے آشنا کے ساتھ کیلیفورنیا میں کہیں رہتی تھی – ربی بیرش کے لیے اب کچھ باقی نہیں رہا تھا، سوائے اس کی پنشن، اور قبرستان میں ایک پلاٹ جو سوچاشیو سوسائٹی کی ملکیت تھا، اور ان کا ایک اپارٹمنٹ جو کلائمر والی گلی میں تھا – اکیلے رہنے سے گریزاں، انہوں نے ایک پناہ گزین کو اپنے ساتھ ٹھہرا لیا – یہ شخص یہود کش کیمپوں سے چھٹ کر لوٹا تھا – سوویت روس میں بھی وقت گزارا تھا، اور پھر آدھی دنیا میں مارا مارا پھرتا رہا تھا – اس کا نام مورِس مَیلنِک تھا۔ وہ ماہانہ 15 ڈالر کرایہ انہیں ادا کرتا تھا۔ اس لمحے وہ ابھی نیند سے نہیں جاگا تھا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی آتشفراری سیڑھیوں کی طرف کھلتی تھی۔ درحقیقت، ربی بیرش کے مَیلنِک کو پناہ دینے کی وجہ اس کا ترحّم تھا نہ کہ ماہانہ 15 ڈالر کا حرص۔ مورِس مَیلنِک سب کچھ گنوا چکا تھا: اس کے ماں باپ، بہنیں اور بھائی، اس کی بیوی اور اس کی اولاد۔ تبھی ربی بَیرِش کو اس بات کا کچھ پچھتاوا نہیں تھا کہ اس نے اپنے مکان کے دروازے مَیلنِک پر کھول دیے تھے۔
مَیلنِک کا انداز تمسخر بھرا ہوا کرتا تھا۔ وہ ایک صاحبِ ایمان شخص نہیں تھا۔ مزید برآں، وہ ناصرف ایک دہریہ تھا بلکہ بدکار بھی تھا۔ ایک سرکش روح۔ وہ محلے کی عورتوں کے ساتھ عشق بازی کی کوششوں میں رہتا، گوشت اور دودھ کے پکوان ملا کر کھاتا تھا۔ رات کے دو بجے گھر لوٹتا اور یوم ثبت بھی کچھ پابندی سے نہیں مناتا تھا۔ جونہی ربی بیرش نے13 بنیادی عقائد کی تلاوت شروع کی، مَیلنِک اندر داخل ہوا۔ یہ ٹِھگنا سا آدمی جس کا چہرا پیلا پڑا ہوا تھا جیسے یرقان زدہ ہو، اور اس کے سر پر بالوں کی کچھ بے ترتیب سی لٹیں تھیں۔ وہ ایک لال پائجامہ اور بوسیدہ سی چپل پہنے ہوئے تھا۔ ڈاڑھی کی حجامت بڑھی ہوئی تھی اور استخوانی سی ناک۔ اس کی چندھی ہوئی آنکھیں سوئیوں جیسی بھنووں کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں۔ اسے دیکھ کے ربی کے ذہن میں ایک سؤر کا سا تصور آتا تھا۔ وہ منہ کھولتا تو اس کے منہ میں جَڑے سونے کا دانت نظر آتے تھے۔ اس نے استفسار کیا “ربی بیرش، آپ ابھی تک عبادت میں مشغول ہیں؟”
“ہاں بھئی۔۔”
“کس کی عبادت کرتے ہو؟ اسی خدا کی جس نے ہٹلر کو تخلیق کیا؟ اور اسے اتنی طاقت دی کہ وہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کی جان لے گیا؟ یا پھر اس خدا کی جس نے اسٹالن کو تخلیق کیا تاکہ وہ مزید ایک کروڑ جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دے – واقعی، آپ اس مالک کائنات کی دو تعویزوں کی رشوت سے خوشنودی نہیں لے پائیں گے، پرلے درجے کا کتی کا بچہ ہے وہ۔ دشمنِ یہود ہے وہ۔۔۔”
“افُووہ!” ربی بیرش نے بدمزہ سا چہرہ بنایا اور کہا “بس چلے جاؤ یہاں سے!”
“کب تک ہم اس کے سامنے یونہی گھگیاتے رہیں گے اور حمدیہ مالائیں جپتے رہیں گے؟” مَیلنِک نے اپنی بات جاری رکھی۔ “میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے ان لوگوں نے ایک یہودی کو اس کے تعویذوں اور نمازی عباؤں سمیت غلاظت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ من و عن!”
ربی بیرش کا لال چہرا اور بھی سرخ ہو گیا۔ وہ جلدی میں تھا کہ کلمے ختم کر لیں اور پھر اپنے ہم مسکن کی بات کا جواب دیں۔ وہ سرگوشی کے انداز میں پڑھنے لگا “میں اس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ (بروز قیامت) مُردوں کو پھر سے زندہ کیا جائے گا، اور اس وقت جب خالق کو منظور ہو گا۔ اس کے نام کا اقبال بلند ہو اور اس کا ذکر دائم مترفّع رہے۔۔” اس نے اپنی دعائیہ کتاب کو بند کیا لیکن اپنی شہادت کی انگلی بیچ میں رہنے دی تاکہ مَیلنِک کو مناسب جواب دینے کے بعد پھر وہیں سے کتاب کھول سکے۔ اس نے ایک آہ بھری اور چہرے پر بدمزگی کا تاثر بنا کر غرّائے:
“کیا تم شانِ الوہی کی گستاخی بند کرو گے؟ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ حدّ ادب کو قائم رکھو پر تم مجھے سکھانے سے باز رہو۔ تم نے جو کچھ بھی دیکھا، قادرِ مطلق رحمان و رحیم ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے طریقے کیا ہیں۔ اگر ہم جان گئے تو اس میں اور ہم میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ ہمیں قوت ارادی عطا کی گئی ہے، جو ہے، سو ہے۔۔۔ اس یہودی کو غلاظت کے گڑھے میں پھینکنے والے لوگ تا ابد جہنم میں رہیں گے اور اس کی روح تختِ احتشامِ الٰہی کی قربت میں آرام کرے گی۔”
“بالکل بکواس! کھوکھلی الفاظ بازی۔ یہ روح کہاں پائی جاتی ہے؟ روح جیسی کوئی جیز نہیں ہے ربی بیرش۔ یہ مدارس کے کاہلوں کی اختراع ہے۔ روس میں ایک پروفیسر تھا پاولوف، جو ان سب سے اعلیٰ تھا۔ بڑا ہی دھانسو، جیسا کہ امریکہ میں کہتے ہیں۔ اس نے ایک کتے کا دماغ کاٹ کر نکالا، اور پتہ چلایا کہ روح جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ دماغ ایک مشین ہے۔ بالکل automat کی طرح، ادھر تین چھوٹے سکّے پھینکو، ادھر ایک سینڈوچ باہر آ گیا۔ مشین کو آپ کے سکّوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ لکڑی کے قرص بھی اندر پھینک سکتے ہیں۔ بس اس کو بنایا ہی ایسا گیا تھا، اور کوئی بات نہیں۔۔۔”
“تم ایک شریف النفس انسان کا کسی کتے یا کسی خودکار مشین سے موازنہ کر رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے مِلنِک صاحب۔ مشین ایک مشین ہوتی ہے، انسان کو خدا کے عکس پر خلق کیا گیا ہے۔۔”
“خدا کا عکس! میں ماسکو کے ایک جیل میں بلڈناؤ کے ایک ربی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سات ہفتوں تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے رہے اور اس تمام عرصے میں وہ ایک ہی کام کرتا رہا: توریت کی تلاوت۔۔۔ اسے بواسیر کی تکلیف تھی، وہ جب بھی برتنِ فضلہ پر بیٹھتا، ایک جانور کی طرح خون کی پیکیں مارتا تھا۔ آدھی رات میں وہ اسے جگاتے اور اس سے پوچھ گچھ کرتے تھے۔۔۔ میں اس کی چیخیں سن سکتا تھا، اور جب وہ واپس آیا تو پھر وہ کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکا۔ ان لوگوں نے اسے اس کے حجرے میں دھکیل دیا اور وہ فرش پر گر پڑا۔ ہم نے بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا۔ سات ہفتوں کی اذیت کے بعد وہ اسے باہر لے گئے، گولی مارنے کے لیے۔۔”
“اچھا، تو کیا اس نے خدا کی ناانصافی کے خلاف کوئی احتجاج کیا؟”
“نہیں، وہ اپنی آخری سانس تک ایک صاحبِ ایمان رہا۔۔”
ربی بیرش بے ساختہ ہچکچایا اور اپنی پیشانی مَلنے لگا۔ “جب کہ خود اختیاری دی گئی ہے۔۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ خبیث انسانوں کے ساتھ اپنی خباثت پر عمل پیرا رہنے کی طاقت ہے، وہ جیسے چاہیں۔۔ یہاں کرّۂ ارض پر بھی کیا حکومت خود اختیاری مہیا نہیں کرتی؟ ہر بدمعاش چوری ڈاکا، قتل کر سکتا ہے جب تک کہ وہ پکڑا نہ جائے۔۔ لیکن جب وہ پکڑا جاتا ہے تب اسے اپنا حساب دینا ہوتا ہے۔۔”
نازیوں کو تو کوئی حساب کتاب نہیں دینا پڑا، ربی بیرش۔ میں میونخ میں تھا جنگ کے خاتمے کے بعد۔ وہ سارے ایک بڑے سے بیئر ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لال تھوتھنیوں والے سؤروں کی طرح ہٹے کٹے، غٹ غٹ ساغر لنڈھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ وحشی آوازوں کے ساتھ نازی ترانے گا رہے تھے۔ وہ کھلے عام فخریہ بتائے جا رہے تھے کہ انہوں نے کتنے یہودیوں کے گھر جلائے، گیس میں دم گھونٹ کے مار ڈالا، زندہ گاڑ دیا، اور پھر کتنی یہودی لڑکیوں کی آبرو ریزی کی۔ آپ نے کبھی ان کے قہقہے سنے ہوتے۔۔۔ امریکہ انہیں اربوں ڈالر بھیج رہا تھا اور وہ بویریائی بیئر اپنے حلق سے اتارتے ہوئے سفید وُرسٹ نگلے جاتے تھے۔ فرطِ سرمستی سے ان کی توندیں پھٹ پڑنے کو آتی تھیں۔۔۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ پہچان گئے کہ میں یہودی ہوں، اور وہ درندے سے بن گئے۔۔ وہ تو وہیں میرا کام تمام کرنے والے تھے۔۔”
“تو تم ایسی جگہ گئے ہی کیوں تھے؟”
“وہاں ایک جرمن عورت میری دوست تھی۔ میں سونے کی اسمگلنگ کرتا تھا اور وہ اسے چھپا کے رکھتی تھی۔۔۔ ہمارا کاروبار جیسے وہ کہتے ہیں کہ آدھے آدھ کا تھا۔۔۔ ہمارا اس کے علاوہ اور بھی دھندا تھا۔”
“افووہ، تم ان سے ذرا بھی بہتر نہیں ہو۔۔۔”
“میں کیا کر سکتا تھا؟ یہودی لڑکیاں یا تو سب بیمار تھیں یا پھر تلخیوں کی ماری۔۔۔ جب آپ ان کے ساتھ لیٹے ہوتے ہیں تو وہ شکووں کا ایسا تانتا لگا دیتی تھیں کہ آپ کے کان پک جائیں۔ وہ بس اتنا چاہتی تھیں کہ کسی طرح بیاہ رچا لیں اور اپنا گھر بسائیں۔ لیکن میں نہیں۔ ایک جرمن لڑکی سے آپ جو چاہتے تھے وہ بغیر کسی جھنجھٹ کے مل جاتا تھا۔ امریکن سگرٹ کی ایک ڈبیا کے عوض تو آپ کو ہِملر (کوتوال) کی بیوہ بھی مل سکتی تھی۔”
“اچھا، خدارا چپ ہو جاؤ۔ اگر تم مجھے سکون سے میری عبادات پوری نہیں کرنے دے سکتے تو مجھ پر یہ نیکی کرو کہ اس گھر سے کہیں اور چلے جاؤ۔ ہم دونوں کا جوڑ نہیں بننے والا۔۔۔”
“مجھے ڈانٹو مت ربی بیرش۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، آپ صبح سے شام تک نمازیں پڑھتے رہیں، خدا کی چاپلوسی کرتے جائیں، اس کی عظمت، اچھائی اور رحمدلی کی حمدیں گاتے پھریں، وہ تم سب کے لیے ایک اور ہٹلر پیدا کرے گا۔۔۔ وہ (دشمنانِ یہود( اپنی تیاریاں شروع کر چکے ہیں۔۔۔ ایک دن انہیں ایٹم بم بھی مل جائے گا، آپ ہی کے ٹیکسوں سے ربی بیرش، جرمنی کو ایک بار پھر مسلّح کیا جا رہا ہے۔۔۔ یہی سچی بات ہے۔۔”
ربی بیرش نے اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں بھینچ لیا۔ “یہ مکمل سچائی نہیں۔ البتہ، آپ براہ کرم اپنے کمرے میں واپس چلے جائیے اور مجھے اپنی نمازیں پوری کرنے دیں۔۔۔”
“ہاں ہاں، پڑھتے پھرو نمازیں۔ تمہارے ساتھ جس بندے کو شکوے ہوں، اس کو اپنے پیٹ میں سے ایک سینگ اگانا چاہیے۔۔”
عبادت کے بعد ربی بیرش باورچی خانے میں چیزیں الٹ پلٹ کر ناشتہ بنانے لگا۔ یہ اصل میں ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا مرکّب تھا، چونکہ ربی بیرش دن میں صرف دو بار کھانا کھاتا تھا۔
اس نے مزید کچھ ڈھونڈا اور ایک آہ بھری۔ ڈاکٹر نے ہر وہ چیز منع کر دی تھی جو اسے پسند تھی: نمک، کالی مرچ، کھٹی بھاجی، مولیاں اور سرسوں کی چٹنی، کھاری مچھلی، اچار، یہاں تک کے مسکہ اور کھٹی ملائی۔ باقی رہ کیا گیا تھا؟ توس اور دہقانی پنیر اور چائے کی ایک ہلکی سی پیالی۔ وہ پالک اور گوبھی بھی کھا سکتا تھا، لیکن اس قسم کی غذا اسے کبھی راس نہیں آئی۔ حتٰی کہ امریکی پھلوں میں بھی وہ پرانے وطن والا مزہ نہیں تھا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اس کی بیوی فائیگے مالکے کے انتقال کے بعد سے ہر چیز کا مزا اور رس جاتا رہا تھا:بستر میں آرام کرنا، صبح سویرے جاگنا، انکل سام کا چیک وصول کرنا، یہاں تک کہ یومِ ثبت اور تہواری چھٹیاں بھی۔۔۔ ربی بیرش کئی بار سوچ چکا تھا کہ وہ اپنے مہمانِ خانہ سے کسی قسم کی گفتگو نہیں کرے گا، ایسا بدمعاش جو جہنم سے ہو کر آیا تھا اور پھر بھی ایک شریف آدمی نہیں بن سکا۔ لیکن دستر خوان پر اکیلے بیٹھنا بھی آسان نہیں تھا۔ بہرحال اس شکوہ کیش ہم مسکن کے ترش الفاظ نے پیاز، گھوڑا مولی، لہسن، یا پھر وادکا کی جگہ لے لی تھی۔ وہ اس کے دل کی دھڑکن کو مزید تیز اور اس کے خون کو شریانوں میں کھولا کے رکھ دیتے تھے۔ ربی بیرش نے آواز دی۔ “بھئی میلنِک صاحب، آئیے اور ایک پیالی چائے لیجیے۔۔۔”
میلنِک فوراً آ کر دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنے سر کے گنجے حصے پر پومیڈ کی کنگھی سے بال ٹکا دیے تھے۔ وہ ایک گلابی قمیص، پیلی ٹائی جس پر کالے گول نشان تھے، فوجی خاکی پتلون اور فوجی جوتے پہنے ہوئے تھا جو کوئی بھی سستے میں خرید سکتا تھا۔ وہ اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی پہنے ہوئے تھا جس میں لال ہیرا لگا ہوا تھا، اور کلائی کے گرد ایک گھڑی پر طلائی پٹہ بندھا تھا۔ اس کی قمیص کی جیب میں تین فونٹین پین اور دو پنسلیں تھیں جن پر چاندی جڑی ہوئی تھی۔ ڈاڑھی کی حجامت اور نہانے کے بعد وہ کسی قدر جوان لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے کی جھلیاں بھی کچھ دبی ہوئی سی تھیں اور آنکھیں پہلے کی نسبت صاف نظر آ رہی تھیں۔ ربی بیرش نے اسے تعجب سے دیکھا۔
“اچھا، تو لیجیے ناں کچھ۔۔۔”
“کیا لوں؟ اگر آپ ایسا دسترخوان ان کیمپوں میں سجاتے تو کیا بات ہوتی۔ جب میں وہاں تھا تو ایک یہودی کو صرف ایک آلو چوری کرنے کی وجہ سے مار ڈالا گیا تھا۔ وہ میرا رشتہ دار تھا۔ میرے والے کیمپ میں ایک آدمی تھا جس کی ایک دکان تھی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کی دکان ہو گی۔ وہ اپنا سامان اپنی الماری اور اپنے سونے والے بستر پر ہی رکھتا تھا۔ اگر وہ پکڑا جاتا تو اسے وہی گولی مار دی جاتی۔ بلکہ اسے گولی مار دی جاتی تو وہ الٹا خوش قسمت ہوتا، وہ تو اسے اذیت کی موت دیتے۔ لیکن بیوپار، بیوپار ہے۔ میں نے دیکھا کہ کاروبار کی وجہ سے ہی یہودیوں کو یوں شہید کیا گیا تھا۔ گھیٹؤوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا، روس میں بھی یہی ہوتا ہے۔ صرف دھاگے کے کچھ گوٹوں اور ایک درجن سوئیوں کے لیے لوگوں کو سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ کیمپوں میں ایسے ہی ایک بیوپاری کے پاس کچھ پتّے بند گوبھی اور آلو کے کچھ چھلکے اور کچھ مرجھائی ہوئی مولیاں تھیں: یہی اس کا کل مال تھا۔ لیکن بھوک بھی ایک بری بلا ہے۔ روسی کیمپوں میں وٹامن کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اسقربوط لاحق ہو جاتا تھا۔ ایسی بیماریوں سے بندہ اچانک مر جاتا ہے۔ میں ایک بار ایسا ہوتے دیکھا ہے۔۔۔”
“ایک لمحہ رکیے، مَیلنِک صاحب، بہتر ہو گا، روٹی کا ایک لقمہ پنیر کے ساتھ چکھیے۔ کچھ چَیریاں لیجیے۔۔۔”
“جی بہت شکریہ۔ تو میں اپنے تختے والے بستر پر پڑا ہوا تھا۔ جاڑے کی رات تھی۔ قازقستان کسی علاقے میں تھا یہ کیمپ۔ اپنے ساتھ کے ہمسائے سے باتیں ہو رہی تھیں۔ سردی اتنی تھی کہ پانی بالٹی میں منجمد ہو گیا تھا۔ ہم اپنے آپ کو اپنے چیتھڑوں میں لپیٹے ہوئے تھے۔ ہر شے پر کہرے کی دبیزتہہ جمی ہوئی تھی۔ ہم بہت بھوکے تھے، لیکن ہم باتیں کیے جا رہے تھے۔ باتیں بھی کیا تھیں، اپنے بیوی بچوں کے متعلق جو جرمنوں کے پاس رہ گئے تھے۔ اس خوشگوار ماضی کی باتیں، اور یہ کہ جب امن و امان لوٹ آئے گا تو ہم کیا کریں گے۔ ہمیں بس ایک ہی کام کرنا تھا: اپنا پیٹ بھرنا۔ ہم سب بھونے ہوئے گوشت اور کیک تصور میں لاتے جسے ہم منہ بھر بھر کھاتے تھے؛ مرغی کا شوربہ، سویّوں کے ساتھ، گوشت بھری ترکاری، مرغی کے تیل میں تلے ہوئے پیاز، آنتوں میں بھرا قیمہ اور آلو کی قتلیاں۔ کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ میں نے اپنے ہمسائے سے کچھ پوچھا لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔ شاید سو گیا ہو۔ میں نے سوچا۔ پھر میں نے کان دھرے، وہ عام طور پر خراٹے لیا کرتا تھا، کیونکہ اس کے ناک میں پھنسیاں تھیں۔ لیکن اب وہ عجیب طور سے خاموش پڑا تھا۔ میں ایک نظر ڈالنے کے لیے تختے سے کچھ نیچے پھسلا۔ وہ آدمی مرا پڑا تھا۔ ابھی ایک لمحہ پہلے وہ اچھی بھلی باتیں کر رہا تھا، دوسرے لمحے وہ مر چکا تھا۔۔”
“بھیانک! بھیانک۔۔”
“آپ کیوں سسکیاں بھر رہے ہیں؟ یہی تو انسان ہونا ہے، اشرف المخلوقات ہونا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ سارے مرد نازی ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں کہ کسی بچھڑے کا گلا کاٹ کر اسے کھا جائیں۔ جس کے ہاتھ میں خنجر ہے وہ تو قتل کرے گا۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہٹلر کا اعتقاد تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اب خدا کو ہی لیجیے۔ وہ سب نازیوں کا باپ ہے۔ ہٹلرِ اعظم۔ جتنی طاقت اس کے پاس ہے، کسی کے پاس نہیں۔ اس لیے وہ سب کو اذیتیں دیتا ہے۔ دیکھیے، میں ایک دہریہ نہیں ہوں۔ جہنم وجود رکھتا ہے۔ لوگ صرف دنیا ہی میں کیوں صعوبتیں اٹھائیں؟ انہیں عاقبت میں بھی اذیت دی جاتی ہے۔ خدا کی خود اپنی ایک ٹریبلِنکا عقوبت گاہ ہے۔ مع بھوت پریت، ابلیس، ملک الموت۔ بے چارے گناہ گاروں کو اس میں بھونا جاتا ہے۔ انہیں ان کی زبانوں یا پستانوں سے باندھ کر لٹکایا جاتا ہے۔ ان ساری باتوں کی تفصیلات “تنبیہہ الغافلین” میں لکھی ہوئی ہیں۔۔۔ لیکن جنت جیسی کوئی جگہ وجود نہیں رکھتی۔ جب موت کی بات آتی ہے، تو میں بالکل منکر بن جاتا ہوں۔۔۔”
ربی بریش کھانا چباتے چباتے رک گیا۔
“وہ خالق کائنات اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے؟”
“کیسے نہیں ہو سکتا؟ اس کے پاس بڑی لاٹھی ہے۔ بس وہ اسے گھماتا ہے۔ اس نے ہمیں توریت دی، جسے کوئی بھی قائم نہیں کرتا۔ ہر چھوٹا موٹا ربی اپنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ اگلے جنم میں ایک سانپ کی کایا میں پیدا ہوتے ہیں۔ مسیحیوں کا ماننا ہے کہ خدا بنی نوعِ آدم کو تب تک پھر سے عِزّ و شرف نہیں دے سکتا تھا جب تک کہ اس کا اپنا اکلوتا بیٹا صلیب پر نہ جھول جاتا۔ وہ بس کسی نہ کسی طرح سے خون کی بھینٹ مانگتا ہے۔۔۔”
“اچھا اب کچھ کھا تو لیجیے۔ حد سے زیادہ باتیں کرنے سے بھی بندہ انصاف میں نہیں رہتا۔۔”
“میں کھا ہی تو رہا ہوں۔۔۔ اور کیا کر رہا ہوں؟ میرے لیے اور رہ بھی کیا گیا ہے، بس کھانا۔ امریکہ میں اچھی عورتیں ہیں ہی نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اچھی عورتیں نہیں رہی ہیں۔ میرے وقتوں میں پھر بھی کچھ وفادار ہوا کرتی تھیں۔ آج کل یہ جنس بالکل ہی غائب ہو گئی ہے۔ جو کچھ میری آنکھوں نے دیکھا ہے آپ نے بھی دیکھا ہوتا تو آپ کی ڈاڑھی سفید سے پھر کالی ہو جاتی۔۔”
“میں اس بارے میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔۔۔”
“میں ان کیمپوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔۔۔ وہاں کوئی بھی عورت اپنی حفاظت نہیں کر سکتی تھی۔ جب جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے ایک ایسی عورت کے بارے میں سنا جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ وہ اپنا آپ اس خارش زدہ یوکرینین آدمی کے سپرد کر دے کیونکہ وہ اس کی شوربے والی پیالی میں کچھ دلیہ اور ڈال سکتا تھا۔ اور اس نے یونہی کیا۔ پھر جب نازیوں کو پتہ چلا تو انہوں نے تینوں کو قتل کر دیا۔ ایسے واقعات بھی ذہن پر کوئی خاص نقش نہیں چھوڑتے تھے۔ میں نے اس سے بھی بدتر واقعات اپنی آنکھوں دیکھے ہیں۔ جب ہمیں چھٹکارا ملا تو کسی پر کوئی زبردستی نہیں کی گئی، لیکن لوگ پھر بھی غلاظت کے عالم میں اپنی لڑائی لڑتے رہے۔ ہم تین خاندان ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ ایک کونے میں ایک عورت ایک دیہاتی سے ہم بستری کر رہی تھی اور دوسرے کونے میں اس کی بہن بھی وہی کر رہی تھی۔ ان سب میں شرم کا احساس ہی جاتا رہا تھا۔ وہ اکٹھے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالا کرتے تھے اور اکٹھے ہم بستری بھی کیا کرتے۔ لوگ قندیل کی روشنی میں یہ کام کرنا چاہتے تھے۔۔۔”
“تم چپ کرو گے یا نہیں؟ میں تمہیں آخری بار خبردار کر رہا ہوں۔۔۔”
“کیا تم حقیقت سننے سے گھبراتے ہو؟”
—
“یہ حقیقت نہیں ہے۔ گناہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ جب آپ گلاس میں بیئر ڈالتے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بھر گیا ہے۔ لیکن وہ دو تہائی تو جھاگ ہے۔ جب جھاگ بیٹھ جاتی ہے تو صرف ایک تہائی رہ جاتی ہے۔خدا کی قائم کردہ حدوں سے تجاوز کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بلبلوں کی طرح پھٹنے لگتی ہیں۔۔۔”
“خوب فرمایا۔۔۔ کیا یہ جناب کے اپنے خیالات ہیں؟”
“میں نے ربی سے سنا تھا۔۔۔”
“اچھی کہاوت ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں ہر چیز ہی کچرا ہے۔ کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں ہے، سب کچرا ہے۔ آپ کا ربی بھی کچرا ہے۔ اس کی ڈاڑھی، اس کے سر کی لٹیں اور اس کے۔۔۔ لباس کے پیچھے ایک مرد ہے جو عورتوں کا رسیا ہے۔ اور اگر وہ کسی حسین عورت سے عقد میں نہیں ہے تو پھر وہ رنڈیوں کے پیچھے بھاگے گا۔۔۔”
“بدمعاش! غدارِ وطنِ عزیزِ اسرائیل!”
“بدمعاش ودمعاش۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں پارسا ہوں۔۔۔ میں وہ سب کرتا ہوں جو میرے بس میں ہے۔ تو اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ بر سبیل تذکرہ، آپ دوبارہ شادی کیوں نہیں رچا لیتے؟ آپ ابھی صحتمند ہیں۔۔۔ میں آپ کو کسی غیر یہودی عورت کے ساتھ ایک منٹ کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔”
ربی بیرش ذراسا جز بز ہوا۔ وہ اپنی مٹھی میز پر رکھے ہوئے۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے اپنی ڈاڑھی سے روٹی کے ریزے نکالنے لگا۔
“بکواس! تم عورتوں کے بارے نہایت گھٹیا باتیں کرتے رہتے ہو۔ لیکن میری فائیگے مالکے ، خدا اسے اپنے جوار رحمت میں رکھے، ایک پاکباز عورت تھی۔ وہ کسی غیر مرد کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھی۔ وہ بالکل میری ماں اور میری دادی کی طرح تھی۔۔۔ تمہیں پاکباز عورتوں کا کیا پتہ جوان آدمی۔۔۔ وارسا میں قاتلوں نے ایک معزز عورت کو سولی پر چڑھا دیا۔ وہ ایک میر محلہ کی بیوی تھی، ایک پاکدامن بی بی تھی۔ جب اسے دار کی طرف گھسیٹا جا رہا تھا، انہیں ڈر تھا کہ کہیں اس کا لباس اس کے گھٹنوں سے ہٹ نہ جائے اور اس کی بے پردگی نہ ہو جائے۔ تو اس نے اپنا لباس ایک سوئی سے اپنی ٹانگوں میں پیوست کر دیا۔ اور اسی طرح سے اسے سولی پر لٹکایا گیا۔”
“کیا آپ اس وقت وہاں موجود تھے؟”
“دوسرے لوگ وہاں تھے۔ میری خالہ ڈیبرا جو صرف 23 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھی، لیکن پھر دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔ انہیں ایک دولت مند آدمی کے ہاں سے پیغام آیا لیکن وہ بولیں کہ میں اپنے زورخ کے لیے پاک و خالص باغِ فردوس میں پہنچوں گی۔۔۔”
“تو کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اب وہاں اس کے ساتھ ہے؟”
“جی ہاں، مجھے یقین ہے۔۔”
“زورخ وہاں نہیں ہے، اور نہ ہی وہ ہے۔ ان کی باقیات سوائے خاک کی ڈھیر کے اور کچھ نہیں ہیں۔ انہوں نے لاحاصل دکھ جھیلے ہیں۔ مارِس مَیلنِک کا کہنا تو یہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایک امیر آدمی تھا، ربی زدوک، ایک عالم۔ وہ مر گیا اور اپنی بیوہ کے لیے بڑا ترکہ چھوڑ گیا۔ آدھا سال گزرا اور اس نے ایک چازکیلی سکاب نامی ایک جاہل قصاب سے شادی رچا لی۔ وہ قصاب کے تختے پر اس کے عشق میں مبتلا ہو گئی تھی۔”
“ہاں، ہر چیز ممکن ہے۔”
“ہر چیز ہی فرسودہ ہے۔”
مَیلنِک خاموش ہو گیا۔ وہ ایک چمچہ لے کر اسے ایک رکابی کے کنارے پر ٹکانے کی کوشش کرنے لگا۔ چمچہ جھول کر ہتھی کی طرف جھکنے لگا۔ مارس مَیلنِک نے جلدی سے نمک کی ایک چٹکی چمچے میں ڈال کر توازن برقرار رکھنا چاہا۔ اس نے اپنے نچلے ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا اور اس کی ایک آنکھ چوڑی ہوتی گئی۔ اس نے دوسری آنکھ کو موند لیا جیسے وہ آنکھ مار رہا ہو۔ ایسے لگا جیسے کہ وہ کوئی فال نکال رہا تھا کہ جونہی چمچہ گرے گا اس پر دنیا کے حالات کی حقیقت منکشف ہو جائے گی۔
ربی بیرش نے ایسے سر ہلایا جیسے کہ وہ ایک پرانی کہاوت سے اتفاق کر رہا ہو، جس کی صداقت پر اگرچہ کوئی بھی شبہ کر سکتا ہو لیکن وہ کسی کو بھی افسردہ کر سکتی ہو۔ اس نے اپنی ڈاڑھی کے بالوں کا ایک گچھا اٹھایا اور اس کا جائزہ لینے لگا، یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ وہ سفید ہو چکا ہے۔ پھر اس نے کہا:
“ایک کیڑا جو کچرے میں گڑا ہوا ہو، اسے کیا پتہ ہو گا کہ عالیشان مکانات، محلات اور باغات کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایک کہاوت ہے: دیوار میں گھسا کھٹمل ناچ کی محفل میں شریک نہیں ہو سکتا۔ آپ دنیا کے بارے میں لاکھ بک بک کرتے رہیں، لیکن ستاروں، کواکب اورالہامات سے بھرا ہوا فردوس تو اپنی جگہ ہے ہی۔ فرشتے، سِرافیم، مقدس رَتھیں بھی تو ہیں۔ ان کے مقابلے میں یہ دنیا خاک کا ایک ذرّہ بلکہ اس سے بھی حقیر شے ہے۔ کچھ مقدس شرارے ہیں لیکن آنکھ سے اوجھل ہیں۔ کبھی کبھار کیچڑ میں بھی ہیرا مل جاتا ہے۔ اس سب کچرے کے بیچ میں کوئی بالشیم، کوئی ربی ایلی ملیخ، کوئی باردیختیور، کوئی کوتزیکر بھی مل جائے گا۔ وہ سب کہاں سے آئے؟ میرے دادا ربی خائم خود ایک ولی تھے۔ پچاس سال تک ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے رہے۔ ہر روز نیم شب اٹھ کر وہ بیت المقدس کی تباہ کاری کا ماتم کرتے تھے، گرما ہو کہ جاڑا۔ اپنی آخری دمڑی تک انہوں نے خیرات کر دی۔ یہ سب میری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔”
ربی بیرش اپنے عبائے کے سینے پر ہاتھ مارنے لگا۔ اس کا چہرا لال ہو گیا اور ڈاڑھی لرزنے لگی۔ پھر وہ بولا، “تم گمراہ ہو، مَیلنِک صاحب۔ جو بھی ہو ایک آدمی کے دکھی لمحوں میں اس کا محاسبہ نہیں کیا جا سکتا۔ چلیے اب مجھے کھانے کے بعد کی دعا پڑھنے دیجیے۔۔”
اس نے ایک گلاس سے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور میز پوش سے پونچھنے لگا۔ پھر بہ آواز بلند قرأت کرنے لگا:
“تو رحمٰن و رحیم ہے، اے مالک، ہمارے خدا، بادشاہِ کائنات، جو اپنی ربوبیت سے ہمیں رزق عطا کرتا ہے، خلوص و محبت کے ساتھ۔۔۔”
اسی لمحے میں وہ چھوٹا چمچہ پلیٹ میں گر گیا۔ مورِس مَیلنِک کی زرد آنکھیں قہقہوں سے بھر گئیں۔ وہ اٹھ کر دروازے تک گیا اور اپنے آپ سے مخاطب ہوا: بس اب جا کے دیکھتے ہیں کہ عورتیں کیا کر رہی ہیں۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(انگریزی میں یدش کا ترجمہ مصنّف نے بذاتِ خود کیا ہے )
آیزک بشیوِش سِنگر جو متعدد ناولوں، افسانوی مجموعوں اور بچّوں کی کتابوں کے مصنف تھے، ۱۹۹۱ میں ان کا انتقال ہوا۔
Nobel prize winner Isaac Bashevis Singer wrote this story in Yiddish / Getman.