عالمی سطح پر تعلیم یافتہ  لوگ اسلام کی ابتداء اور اس  کے عقائد کے بارے میں کچھ تو جانتے ہیں کہ یہ عرب دنیا سے نکلا مذہب ہے، اسکے پیرو اسلام کے پیغمبر کو رسول اللہ مانتے ہیں، مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں، وغیرہ ۔  تاہم کیا کسی بھی علاقہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو یہودیت کی آفرنیش  کے بارے میں ہلکا سا بھی کوی ادراک یا تصّور ہے؟ اس گفتگو میں میں نے  یہودیوں کی تاریخ یا کہیے انکی کہانی  پیش کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔

لفظ یہودی  دراصل سات یا آتھ سوسال قبلِ مسیح  کے ایک علاقہ سے ماخوز ہے جسے جوڈیا کہا جاتا تھا ۔ 

 اس طرح  جو بھی وہاں کا باشندہ تھا یہودی کہلاتا تھا ۔۔ یہاں حضرت داؤد کی سلطنت تھی اور یروشلم میں انکی عظیم  عبادت گاہ  ‘ہیکل، تھی جسے آج   ہیکل سلیمانی  بھی کہا جاتا ہے ۔۔ وہاں سے شاید سو میل دور آج کے عراق میں ایک اور سلطنت تھی جسے بابل کہا جاتا تھا ۔   

    قوم بابل کی فوج نے   ۵۸۷ قبل  مسیح  میں جوڈیا پر حملہ کرکے یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔  یہ ایک جنگجو قبیلہ تھا جسکے لشکر نےحملہ کے دوران ہیکل سلیمانی کو تباہ کر دیا تھا  اور وہ  10,000 یہودیوں کو جنگی  قیدی بنا کر اپنے ساتھ وطن لے گئے تھے۔  ان یہودیوں نے کچھ عرصہ بعد اپنے نئے وطن میں خوب ترقی کی، لیکن انہیں  ہیکل سے محرومی کا احساس ستاتا رہا۔۔  

   چنانچہ ان کے معززین نے یروشلم میں ہیکل کے ذمہ داران کو خطوط لکھے تاکہ وہ ان سے یروشلم سے دور اپنی زندگی گزارنے کے لیئے  رہنمائی حاصل کر سکیں ۔  اُنہوں نے جو جواب بھیجا وہ حِکمت ودانائی سے بھر پور تھا۔  یہی حکمت تھی ، یہ وہی راز تھا جسکی بناہ پر ایک اقلیّت کی حیثیت کے باوجود یہودی کامیاب رہے اور پھلتے پھولتے رہے ۔۔  وہ جواب جو ہیکل سے آیا اس میں بولا گیا کہ جس ملک میں رہو اُس ملک کے وفادار رہو، اُسکی بہبودی کے لٗیے دعا کرتے رہو ۔ لیکن ساتھ ساتھ ہروشلم کے لٗے دعا کرو اور یہودیت کے رسومات پر قاٗیم رہو ، اپنی شناخت اور ثقافت پر پابند رہو ۔  

 نیز یروشلم کی طرف  رخ کرکے  اپنی عبادت کریں ہیں اور اپنے گھروں میں ان روایات  و تعلیمات کو زندہ  رکھیں  جو زندگی گزارے کے لیئے سکھائی گئی ہیں۔ وہ یہ کہ لڑکوں کی ختنہ کرواٗیں، اپنے پکوان میں کوشر اصولوں کی پابندی کریں، خنزیر نا کھاٰٗیں، اور ہر ہفتہ کے دن مکمل طورگھر میں عبادت کرتے رہیں ۔۔ شباط کے اصول پر قاٗیم رہیں ۔

چند صدیوں بعد رومیوں نے فلسطین پر حملہ کر کے فلسطین کو ‘ مقد س رومی سلطنت” کا صوبہ بنا دیا۔ یہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے آس پاس کی بات ہے، (جسے رومن وقائع نگاروں نے درج کیا ہے)، یہودیوں میں وسیع پیمانے پر یہ خیال رائج  تھا کہ اب دنیا اپنے  خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ”آخری وقت  آن پہنچا ہے۔ ہمارا مسیحا ایک نٗیے حضرت داوؐ

 “کی شکل میں نمودار ہوگا جو ہم یہودیوں کو غیر ملکی تسلط و غلامی سے آزاد کرائے گا۔

حضرت عیسیٰ کی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک انسان دوست، ولی صفت  مبلغ  ربیاٗی تھے ، عبرانی زبان میں وہ خود کوی  کوہن یعنی مذہبی پیشوا نہیں تھے۔  اس کے برعکس  حضرت عیسٰی  نے  طمع و حرص اور تشدد  جیسی برائیوں کے خلاف مہم چلا رکھی تھی اور یہودی پیشواؐںوں کی مذمت کی۔ اس طرح  بہت جلد حضرت عیسیٰ کے عقیدت مند پیروکاروں کا ایک حلقہ بن گیا۔ ییہودی پیشوا نے حضرت عیسٰی اور انکے حواریوں کو خطرناک  باغی قرار دے دیا اور اس کا  الزام رومی

گورنر پیلاط کے سامنے پیش کیا ۔ 

  رومی حکمرانوں نے بغاوت کی ایک معیاری سزا مقرر کر رکھی تھی، صلیب پر لتکا کر کیل ٹھوکنا یا سولی پر لٹکانا۔ ظلم و جبر  یا  خشک سالی سے بچنے کے لیئے یہودی قبائل  بڑی تعداد میں فلسطین سے ترک وطن کرکے دور دراز کے علاقوں جیسے  کیف اور جنوب مغربی ہندوستان میں کورو منڈل کے ساحل  میں جاکربس گئے۔ 

   دنیا میں یہودیوں  کے منتشر ہو جانے کے بارے میں متعدد مزعومات  پائے جاتے ہیں۔

یہودیوں کی کوئی بھی تاریخ پیش کرتے وقت  اندلس کے عظیم نشاۃ ثانیہ کی تاریخ کو ضرور بیان کرنا چاہیے۔ اندلس آٹھویں  ویں صدی سے 1492 تک مسلمانوں کے زیر اقتدار رہا  جس میں یہودی تاجروں اور دانشوروں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے شانہ بشانہ  کام کیا  اور اقتدار میں شامل رہے ، جس سال  غرناطہ کا سقوط ہوا  اس سال کولمبس نے بحر اوقیا نوس سے اپنا سفر شروع کیا تھا یہی وہ منحوس سال تھا جب  ہسپانی عیسای فاتحین، ازابللا اور فرڈی نانڈ ، نے یہ حکم صادر کیا کہ ہر غیر عیسای تبدیلِ مذہب کریں، یا ملک بدر ہوجاٗیں ۔۔ ان وحشی اور جابر عیساٗیوں کے ہاتھوں مسلمان بھی نام بدل کر تقیّہ کرنے لگے۔۔ بہت سے دلیر یہودیوں اور مسلمانوں کو شاہراہوں پر اگ کی نظر کردیٗا گیا ۔

بہت سے ہسپانوی یہودی دانشوران مراقش اور مصر میں پناہ گزین ہوے ۔۔ ان میں موسیٰ بن مامون  (1138–1204) بہت بڑے حکیم اور تورات و تلمود کے عظیم عالم سمجھے جاتے ہیں ۔۔ اندلس سے بہت دور، شام اور لبنان کے ساحلی علاقوں سے بھی یہودی ترک وطن کرکے یورپ اور امریکا ہجرت کر گیٗے ۔   

  میں 2019 میں ترکی کے شہر  انطاکیہ  میں واقع  سینی گاگ پہنچا -یہ مقام مجھ  عزیز ہے کیونکہ یہاں شہنشاہ جولین نے پرورش پائی تھی اور یہیں سنہ 363 میں قتل ہوے ۔ جولین یونانی روایات و تہذیب کے آخری امین و پاسدار تھے۔ انکا دور شروع ہونے سے 

کچھ دہائیوں قبل  شہنشا  قسطنطنیہ نے عیسائییت اختیار کرلی تھی ۔ أسی نے 325 میں  پہلی(First مشاورتی انجمن  نیقیہ منعقد کی تھی (Council of Nicea) اورباور کیا گیا کہ تثلیث عیسائی کی عقیدے کی نمائندگی کرتا ہے:” یعنی   باپ،   بیٹا اورمقدس روح  یہ تینوں ایک مجسم ربوبیت  ہیں ۔ ا سلام کے پیغمبر اس مذہبی فیصلہ کے 245 سال بعد 570 میں پیدا ہوئے اور 632 میں وفات  کر گئے۔

از اُسامہ خالدی، ترجمہ قمر فاروقی

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights